البلاغ المبین
ارشاد خداوندی ہے:
وَ اَطِیۡعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوۡا فَتَفۡشَلُوۡا وَ تَذۡہَبَ رِیۡحُکُمۡ وَ اصۡبِرُوۡا (الانفال: 52)
ترجمہ: اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں نزاع نہ کرو ورنہ ناکام رہو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی اور صبر سے کام لو
نبی کریمﷺ کا ارشاد پاک ہے:
انما المؤمنون اخوۃ
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شیعہ سنی نہ صرف فقہی فروعات بلکہ اعتقادات کے فرعی مسائل میں بھی اختلاف رکھتے ہیں۔ ایک معقول حد تک اختلاف نظر انسانی زندگی میں ترقی، پیشرفت اور ذہنی بالیدگی کا باعث ہے، کم از کم اس انسان کے لئے جس کا علمی سرمایہ بہت کم ہو، پیشرفت اور ترقی کا باعث ہے۔ جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے:
وَ مَاۤ اُوۡتِیۡتُمۡ مِّنَ الۡعِلۡمِ اِلَّا قَلِیۡلًا (اسراء-85)
ترجمہ: اور تمہیں تو بہت کم علم دیا گیا ہے۔
اختلاف آراء کوئی عیب نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ امت مسلمہ اپنے اندر پائے جانے والے فکری اختلافات کو باہمی عناد و دشمنی کی بجائے ایک دوسرے کے نظریات کو برداشت کریں اور ساتھ ہی ساتھ ایک دوسرے کے افکار کو سمجھیں تاکہ امت کے اندر پائی جانے والی غلط فہمیوں کا قلع قمع کر سکیں۔
اکیسویں صدی میں بھی جب کہ دنیا گلوبل ویلج کی شکل اختیار کر چکی ہے تحقیق اور جستجو سے دلچسپی رکھنے والے افراد کے لئے تحقیق کا میدان کھل چکا ہے، آج کے دور میں ایک دوسرے کے نظریات سمجھنے کے لئے کوئی زیادہ مشقت نہیں کرنی پڑتی، اس کے باوجود بھی امت مسلمہ باہمی غلط فہمیوں کی شکار ہے۔ ایک دوسرے کے بارے میں افواہوں، غیر مستند باتوں پر یقین کئے ہوئے ہیں یہاں تک کہ کفر کا فتویٰ تک داغ دیتے ہیں۔
البلاغ المبین امت مسلمہ کے اندر موجود باہمی تناؤ کو کم کرنے اور اہل سنت بھائیوں کے درمیان شیعوں سے متعلق پائے جانے والے غیر مستند اور بے بنیاد الزامات کو دور کرنے کے لئے عمل پیرا ہے، تاکہ شیعہ سنی حقیقی معنوں میں انما المؤمنون اخوۃ کا مصداق بن سکیں۔
وَ اِنَّ ہٰذِہٖۤ اُمَّتُکُمۡ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ اَنَا رَبُّکُمۡ فَاتَّقُوۡنِ (المؤمنون: 52)
ترجمہ: اور تمہاری یہ امت یقینا امت واحدہ ہے اور میں تمہارا رب ہوں لہٰذا مجھ ہی سے ڈرو۔
اللہ تعالیٰ امت مسلمہ میں باہمی یگانگت، اخوت اور رواداری پیدا فرمائے۔